جنگ حنين
اس
جنگ كى ابتداء يوں ہوئي كہ جب ''ہوازن'' جو بہت بڑا قبيلہ تھا اسے فتح مكہ
كى خبر ہوئي تو اس كے سردار مالك بن عوف نے افراد قبيلہ كو جمع كيا او ران
سے كہا كہ ممكن ہے فتح مكہ كے بعد محمد ان سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو،
كہنے لگے كہ مصلحت اس ميں ہے كہ اس سے قبل كہ وہ ہم سے جنگ كرے ہميں قدم
آگے بڑھا نا چاہئے _
رسول اللہ (ص) كو يہ اطلاع پہونچى تو آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ سر زمين ہوازن كى طرف چلنے كو تيار ہو جائيں
1
ہجرى رمضان المبارك كے آخرى دن تھے يا شوال كا مہينہ تھا كہ قبيلہ ہوازن
كے افراد سردار ''مالك بن عوف ''كے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او
رعورتيں بھى اپنے ساتھ لے آئے تاكہ مسلمانوں سے جنگ كرتے دقت كسى كے دماغ
ميں بھاگنے كا خيال نہ آئے،اسى طرح سے وہ سرزمين ''اوطاس'' ميں وارد ہوئے_
پيغمبر
اسلام (ص) نے لشكر كا بڑا علم باندھ كر على عليہ السلام كے ہاتھ ميں ديا
او روہ تمام افراد جو فتح مكہ كے موقع پر اسلامى فوج كے كسى دستے كے كمانڈر
تھے آنحضرت (ص) كے حكم سے اسى پرچم كے نيچے حنينكے ميدان كى طرف روانہ
ہوئے _
رسول
اللہ (ص) كو اطلاع ملى كہ ''صفوان بن اميہ'' كے پاس ايك بڑى مقدار ميں
زرہيں ہيں آپ نے كسى كو اس كے پاس بھيجا اور اس سے سو زرہيں عاريتاً طلب
كي، صفوان نے پوچھا واقعاً عاريتاً يا غصب كے طور پر _ رسول اللہ (ص) نے
فرمايا: عاريتاً ہيں اور ہم ان كے ضامن ہيں كہ صحيح و سالم واپس كريں گے _
صفوان نے زرہيں عاريتاً پيغمبر اكرم (ص) كودےديں اورخود بھى آنحضرت (ص) كے ساتھ چلا _
فوج
ميں كچھ ايسے افراد تھے جنہوں نے فتح مكہ كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا،
ان كے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدين اسلام تھے جو پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ فتح
مكہ كے لئے آئے تھے ، يہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتى ہے، يہ سب ميدان جنگ
كى طرف چل پڑے _
دشمن كے لشكر كا مورچہ
''مالك
بن عوف'' ايك مرد جرى او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبيلے
كو حكم ديا كہ اپنى تلواروں كے نيام توڑ ڈاليں او رپہاڑ كى غاروں ميں ،
دروں كے اطراف ميں او ردرختوں كے درميان لشكر اسلام كے راستے ميں كمين
گاہيں بنائيں اور جب اول صبح كى تاريكى ميں مسلمان وہاں پہنچيں تو اچانك
اور ايك ہى بار ان پر حملہ كرديں اور اسے فنا كرديں
اس نے مزيد كہا :محمد كا ابھى تك جنگجو لوگوں سے سامنا نہيں ہوا كہ وہ شكست كا مزہ چكھتا _
رسول
اللہ (ص) اپنے اصحاب كے ہمراہ نماز صبح پڑھ چكے تو آپ (ص) نے حكم ديا كہ
سر زمين حنين كى طرف چل پڑيں ،اس موقع پر اچانك لشكر'' ہوازن'' نے ہر طرف
سے مسلمانوں پرتيروں كى بوچھار كر دي، وہ دستہ جو مقدمہ لشكر ميں تھا (اور
جس ميں مكہ كے نئے نئے مسلمان بھى تھے ) بھاگ كھڑا ہوا، اس كے سبب باقى
ماندہ لشكر بھى پريشان ہوكر بھاگ كھڑا ہوا
خداوندمتعال
نے اس موقع پر دشمن كے ساتھ انہيں ان كى حالت پر چھوڑ ديا او روقتى طور پر
ان كى نصرت سے ہاتھ اٹھاليا كيونكہ مسلمان اپنى كثرت تعداد پر مغرور تھے،
لہذا ان ميں شكست كے آثار اشكار ہوئے، ليكن حضرت على عليہ السلام جو لشكر
اسلام كے علمبردار تھے وہ مٹھى بھر افراد سميت دشمن كے مقابلے ميں ڈٹے رہے
او راسى طرح جنگ جارى ركھے رہے _
اس
وقت پيغمبر اكرم (ص) قلب لشكر ميں تھے، رسول اللہ كے چچا عباس بنى ہاشم كے
چند افراد كے ساتھ آپ (ص) كے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، يہ كل افراد نو سے
زيادہ نہ تھے دسويں ام ايمن كے فرزند ايمن تھے، مقدمہ لشكر كے سپاہى فرار
كے موقع پر رسول اللہ (ص) كے پاس سے گزرے تو آنحضرت(ص) نے عباس كو جن كى
آواز بلند او رزور دار تھى كو حكم ديا كہ اس ٹيلے پر جو قريب ہے چڑھ جائيں
او رمسلمانوں كو پكاريں :
''يا معشر المھاجرين والانصار يا اصحاب سورةالبقرة يا اھل بيعت الشجرة الى اين تفرون ھذا رسول اللہ _ ''
اے مہاجرين وانصار اے سورہ بقرہ كے ساتھيو
اے
درخت كے نيچے بيعت كرنے والوكہاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ (ص) تو يہاں
ہيں _ مسلمانوں نے جب عباس كى آواز سنى تو پلٹ آئے اور كہنے لگے:لبيك لبيك
خصوصاً
لوٹ آنے والوںميں انصار نے پيش قدمى كى او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت
حملہ كيا اور نصرت الہى سے پيش قدمى جارى ركھى يہاں تك كہ قبيلہ ہوازن وحشت
زدہ ہوكر ہر طرف بكھر گيا، مسلمان ان كا تعاقب كررہے تھے، لشكر دشمن ميں
سے تقريباً ايك سو افراد مارے گئے ،ان كے اموال غنيمت كے طور پر مسلمانوںكے
ہاتھ لگے او ركچھ ان ميں سے قيدى بنا لئے گئے _
لكھا
ہے كہ اس تاريخى واقعہ كے آخر ميں قبيلہ ہوازن كے نمائندے رسول اللہ (ص)
كى خدمت ميں حاضر ہوئے او راسلام قبول كرليا،پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے بہت
محبت و الفت فرمائي، يہاںتك كہ ان كے سر براہ مالك بن عوف نے بھى اسلام قبو
كر ليا، آپ (ص) نے اس كا مال او رقيدى اسے واپس كرديئےو راس كے قبيلہ كے
مسلمانوں كى سردارى بھى اس كے سپرد كردى _
درحققت
ابتداء ميں مسلمانوں كى شكست كا اہم عامل غرور و تكبر جو كثرت فوج كى وجہ
سے ان ميں پيدا ہوگيا تھا، اسكے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں كا وجود تھا جن
ميں سے بعض فطرى طور پر منافق تھے ، كچھ ان ميں مال غنيمت كے حصول كے لئے
شامل ہوگئے تھے او ربعض بغير كسى مقصد كے ان ميں شامل ہوگئے تھے_
نہائي
كاميابى كا سبب حضرت رسول اكرم (ص) ، حضرت على عليہ السلام اور بعض اصحاب
كا قيام تھا، اور پہلے والوںكا عہد و پيمان اور خدا پر ايمان اور اس كى مدد
پر خاص توجہ باعث بنى كہ مسلمانوں كو اس جنگ ميں كاميابى ملي_
بھاگنے والے كون تھے ؟
اس
بات پر تقريباً اتفاق ہے كہ ميدان حنين ميں سے اكثريت ابتداء ميں بھاگ گئي
تھي، جو باقى رہ گئے تھے ان كى تعداد ايك روايت كے مطابق دس تھى او ربعض
نے تو ان كى تعداد چار بيان كى ہے بعض نے زيادہ سے زيادہ سو افراد لكھے ہيں
_
بعض
مشہور روايات كے مطابق چونكہ پہلے خلفاء بھى بھاگ جانے والوں ميں سے تھے
لہذا بعض اہل سنت مفسرين نے كوشش كى ہے كہ اس فرار كو ايك فطرى چيز كے طور
پر پيش كيا جائے _ المنار كے مو لف لكھتے ہيں : ''جب دشمن كى طرف سے
مسلمانوں پر تيروں كى سخت بوچھارہوئي توجو لوگ مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ مل
گئے تھے، اورجن ميں منافقين اورضعيف الايمان بھى تھے اور جو مال غنيمت كے
لئے آگئے تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے اور انہوں نے ميدان ميں پشت دكھائي تو باقى
لشكر بھى فطرى طور پر مضطرب او رپريشان ہوگيا وہ بھى معمول كے مطابق نہ كہ
خوف و ہراس سے ،بھاگ كھڑے ہوئے اوريہ ايك فطرى بات ہے كہ اگر ايك گروہ
فرار ہو جائے تو باقى بھى بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہيں، لہذا ان كا
فرار ہونا پيغمبر (ص) كى مدد ترك كرنے او رانہيں دشمن كے ہاتھ ميں چھوڑ
جانے كے طور پر نہيں تھا كہ وہ خداكے غضب كے مستحق ہوں، ہم اس بات كى تشريح
نہيں كرتے او راس كا فيصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہيں
0 comments:
Post a Comment