فتح مكہ
فتح
مكہ نے; تاريخ اسلام ميںايك ن ى فصل كا اضافہ كياہے اور تقريباً بيس سال
كے بعد دشمن كى مقاومتوں كو ہميشہ كے لئے ختم كرديا، حقيقت ميں فتح مكہ سے
جزيرة العرب سے شرك و بت پر ستى كى بساط لپيٹ دى گئي ،اور اسلام دنياكے
دوسرے ممالك كى طرف حركت كے لئے آمادہ ہوا_
اس
واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ عہد وپيمان اور صلح كے بعد كفار نے عہد شكنى كى
اور اس صلح نامہ كونظر انداز كرديا، اور پيغمبر (ص) كے بعض حليفوں كے ساتھ
زيادتى كي، آپ(ص) كے حليفوں نے آنحضرت (ص) سے شكايت كى تورسول اللہ (ص) نے
اپنے حليفوںكى مددكرنے كا ارادہ كرليا،اور دوسرى طرف مكہ ميں بت پرستى شرك
اور نفاق كا جو مركز قائم تھا اس كے ختم ہونے كے تمام حالات فراہم ہوگئے
تھے اور يہ ايك ايسا كام تھا جسے ہر حالت ميں انجام دينا ضرورى تھا،اس لئے
پيغمبر خدا (ص) كے حكم سے مكہ كى طرف جانے كے لئے آمادہ ہوگئے ،فتح مكہ تين
مراحل ميںانجام پائي _
پہلا مرحلہ مقدماتى
تھا، يعنى ضرورى قوااور توانائيوں كو فراہم كرنا، زمانہ كے موافق حالات كا
انتخاب اور دشمن كى جسمانى و روحانى قوت و توانائي كى مقدار وكيفيت كى
حيثيت كے بارے ميں كافى اطلاعات حاصل كرنا تھا_
دوسرا مرحلہ،
فتح كے مرحلہ كوبہت ہى ماہرانہ اور ضائعات و تلفات يعنى نقصان كے بغير
انجام دينا تھا_ اور آخرى مرحلہ، جو اصلى مرحلہ تھا، وہ اس كے آثار و نتائج
كا مرحلہ تھا_
يہ
مرحلہ انتہائي دقت، باريك بينى اور لطافت كے ساتھ انجام پايا ، خصوصاً
رسول اللہ (ص) نے مكہ و مدينہ كى شاہراہ كو اس طرح سے سے قرق كرليا تھا كہ
اس عظيم آمادگى كى خبر كسى طرح سے بھى اہل مكہ كو نہ پہنچ سكي_ اس لئے
انہوں نے كسى قسم كى تيار ى نہ كى ،وہ مكمل طور پر غفلت ميں پڑے رہے اور
اسى وجہ سے اس مقد س سرزمين ميںاس عظيم حملہ اور بہت بڑى فتح ميں تقريباً
كوئي خون نہيں بہا_
يہاں
تك كہ وہ خط بھي،جو ايك ضعيف الايمان مسلمان ''حاطب بن ابى بلتعہ''نے قريش
كو لكھا تھا اور قبيلہ ''مزينہ'' كى ايك عورت ''كفود''يا ''سارہ''نامى كے
ہاتھ مكہ كى طرف روانہ كيا تھا،اعجاز آميز طريقہ سے پيغمبر اكرم (ص) كے لئے
آشكار ہوگيا، على عليہ االسلام كچھ دوسرے لوگوں كے ساتھ بڑى تيزى سے اس كے
پيچھے روانہ ہوئے، انہوںنے اس عورت كو مكہ و مدينہ كى ايك درميانى منزل
ميںجاليا اور اس سے وہ خط لے كر،خود اسے بھى مدينہ واپس لے آئے_
مكہ كى طرف روانگي
بہر
حال پيغمبر اكرم (ص) مدينہ ميں اپنا ايك قائم مقام مقرر كر كے ہجرت كے
آٹھويں سال ماہ رمضان كى دس تاريخ كو مكہ كى طرف چل پڑے ، اور دس دن كے بعد
مكہ پہنچ گئے _
پيغمبر
اكرم (ص) نے راستے كے وسط ميں اپنے چچا عباس كو ديكھا كہ وہ مكہ سے ہجرت
كركے آپ(ص) كى طرف آرہے ہيں _ حضرت(ص) نے ان سے فرمايا كہ اپنا سامان مدينہ
بھيج ديجئے اور خود ہمارے ساتھ چليں، اور آپ آخرى مہاجر ہيں_
آخر
كار مسلمان مكہ كى طرف پہنچ گئے اور شہر كے باہر،اطراف كے بيابانوں ميں اس
مقام پر جسے ''مرالظہران''كہا جاتا تھا اور جو مكہ سے چند كلوميٹر سے
زيادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑائو ڈال ديا_ اور رات كے وقت كھانا پكانے كے لئے
(يا شايد اپنى وسيع پيمانہ پر موجودگى كو ثابت كرنے كے لئے) وہاں آگ روشن
كردي، اہل مكہ كا ايك گروہ اس منظر كو ديكھ كر حيرت ميں ڈوب گيا_
ابھى تك پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام كے اس طرف آنے كى خبريں قريش سے پنہاں تھيں_
اس
رات اہل مكہ كا سرغنہ ابو سفيان اور مشركين كے بعض دوسرے سرغنہ خبريںمعلوم
كرنے كے لئے مكہ سے باہر نكلے،اس موقع پر پيغمبر اكرم (ص) كے چچا عباس نے
سوچا كہ اگر رسول اللہ (ص) قہرآلود طريقہ پر مكہ ميںوارد ہوئے تو قريش ميں
سے كوئي بھى زندہ نہيں بچے گا، انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) سے اجازت لئے اور
آپ (ص) كى سوارى پر سوار ہوكر كہا ميں جاتاہوں ،شايد كوئي مل جائے تو اس سے
كہوں كہ اہل مكہ كو اس ماجرے سے آگاہ كردے تا كہ وہ آكر امان حاصل كرليں_
عباس
وہاںروانہ ہوكر بہت قريب پہنچ گئے_ اتفاقاً اس موقع پر انہوں نے ''ابو
سفيان''كى آواز سنى جواپنے ايك دوست ''بديل'' سے كہہ رہا تھا كہ ہم نے كبھى
بھى اس سے زيادہ آگ نہيں ديكھي، ''بديل'' نے كہا ميرا خيال ہے كہ يہ آگ
قبيلہ''خزاعہ''نے جلائي ہوئي ہے، ابوسفيان نے كہا قبيلہ خزاعہ اس سے كہيں
زيادہ ذليل وخوار ہيں كہ وہ اتنى آگ روشن كريں،اس موقع پر عباس نے ابوسفيان
كو پكارا، ابوسفيان نے بھى عباس كو پہچان ليا اور كہا سچ سچ بتائو كيا بات
ہے؟
عباس
نے جواب ديا: يہ رسول اللہ (ص) ہيں جو دس ہزار مجاہدين اسلام كے ساتھ
تمہارى طرف آرہے ہيں، ابو سفيان سخت پريشان ہوا اور كہا آپ مجھے كيا حكم
ديتے ہيں_
عباس نے كہا:ميرے ساتھ آئو اور رسول اللہ (ص) سے امان لے لو ورنہ قتل كرديے جائوگے_
اس
طرح سے عباس نے''ابوسفيان''كو اپنے ہمراہ رسول اللہ (ص) كى سوارى پر ہى
سوار كرليا اور تيزى كے ساتھ رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں پلٹ آئے _ وہ جس
گروہ اور جس آگ كے قريب سے گزرتے وہ يہى كہتے كہ يہ تو پيغمبر (ص) كے چچا
ہيں جو آنحضرت (ص) كى سوارى پر سوار ہيں ،كوئي غير آدمى ہے، يہاںتك كہ وہ
اس مقام پر آئے، جہاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب كى نگاہ ابو سفيان
پر پڑى تو كہا خدا كا شكر ہے كہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفيان) پر مسلط كيا
ہے، اب تيرے لئے كوئي امان نہيں ہے اور فوراً ہى پيغمبر (ص) كى خدمت
ميںآكرآپ (ص) سے ابوسفيان كى گردن اڑانے كى اجازت مانگى _
ليكن اتنے ميں عباس بھى پہنچ گئے اور كہا: كہ اے رسول خدا (ص) ميں نے اسے پنا ہ دے دى ہے
پيغمبر
اكرم (ص) نے فرمايا: ميں بھى سر دست اسے امان ديتا ہوں، كل آپ (ص) اسے
ميرے پاس لے آئيں اگلے دن جب عباس اسے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں لائے تو رسول
اللہ (ص) نے اس سے فرمايا:''اے ابوسفيان وائے ہو تجھ پر، كيا وہ وقت ابھى
نہيں آيا كہ تو خدائے يگانہ پر ايمان لے آئے''_
اس
نے عرض كيا: ہاں ےا رسول خدا (ص) ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،ميں گواہى
ديتاہوں كہ خدا يگانہ ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے،اگر بتوں سے كچھ ہو
سكتا تو ميں يہ دن نہ ديكھتا_
آنحضرت نے فرمايا:''كيا وہ موقع نہيں آيا كہ تو جان لے كہ ميں اللہ كا رسو ل ہوں''_
اس
نے عرض كي:ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ںابھى اس بارے ميں ميرے دل ميں كچھ
شك و شبہ موجود ہے ليكن آخر كار ابوسفيان اور اس كے ساتھيوں ميں سے دو
آدمى مسلمان ہوگئے_
پيغمبر اكرم (ص) نے عباس سے فرمايا:
''ابوسفيان كو اس درہ ميں جو مكہ كى گزرگاہ ہے، لے جائو تاكہ خدا كا لشكر وہاں سے گزرے اور يہ ديكھ لے''_
عباس
نے عرض كيا:''ابوسفيان ايك جاہ طلب آدمى ہے،اسكو كوئي امتيازى حيثيت دے
ديجئے''پيغمبر (ص) نے فرمايا:''جو شخص ابوسفيان كے گھر ميں داخل ہوجائے وہ
امان ميں ہے،جوشخص مسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ امان ميں ہے،جو شخص اپنے
گھر كے اندر ہے اور دروازہ بند كرلے وہ بھى امان ميں ہے''_
بہر
حال جب ابوسفيان نے اس لشكر عظيم كو ديكھا تو اسے يقين ہوگيا كہ مقابلہ
كرنے كى كوئي راہ باقى نہيں رہى او راس نے عباس كى طرف رخ كركے كہا:آپ كے
بھتيجے كى سلطنت بہت بڑى ہوگئي ہے،عباس نے كہا: وائے ہو تجھ پر يہ سلطنت
نہيں نبوت ہے_
اس كے بعدعباس نے اس سے كہا كہ اب تو تيزى كے ساتھ مكہ والوں كے پاس جاكر انہيں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ڈرا_
ابوسفيان; لوگوں كو تسليم ہونے كى دعوت كرتاہے
ابوسفيان نے مسجدالحرام ميں جاكر پكار كر كہا:
''اے
جمعيت قريش محمد ايك بہت بڑے لشكر كے ساتھ تمہارى طرف آيا ہے،تم ميں اس كا
مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ہے، اس كے بعد اس نے كہا: جو شخص ميرے گھر ميں
داخل ہوجائے وہ امان ميںہے،جو شخص مسجد الحرام ميں چلا جائے وہ بھى امان
ميں ہے اور جو شخص اپنے گھر ميں رہتے ہوئے گھر كا دروازہ بندكرے وہ بھى
امان ميں ہے''_
اس
كے بعد اس نے چيخ كر كہا: اے جمعيت قريش اسلام قبول كرلو تا كہ سالم رہو
اور بچ جائو، اس كى بيوي''ہندہ''نے اس كى داڑھى پكڑلى اور چيخ كر كہا:اس
بڈھے احمق كو قتل كردو_
ابوسفيان نے كہا: ميرى داڑھى چھوڑدے_ خدا كى قسم اگر تو اسلام نہ لائي تو تو بھى قتل ہو جائے گي،جاكر گھر ميں بيٹھ جا_
على عليہ السلام كے قدم دوش رسول (ص) پر
اس
كے بعد پيغمبر اسلام (ص) لشكر اسلام كے ساتھ روانہ ہوئے اور ''ذوى طوي''كے
مقام تك پہنچ گئے،وہى بلند مقام جہاں سے مكہ كے مكانات صاف نظرآتے
ہيں،پيغمبر (ص) كو وہ دن ياد آگيا جب آپ مجبور ہوكر مخفى طور پر مكہ سے
باہر نكلے تھے، ليكن آج ديكھ رہے ہيں كہ اس عظمت كے ساتھ داخل ہورہے ہيں،تو
آپ نے اپنى پيشانى مبارك اونٹ كے كجاوے كے اوپر ركھ دى او رسجدہ شكر بجا
لائے،اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) ''حجون'' ميں (مكہ كے بلند مقامات ميں سے وہ
جگہ جہاں خديجہ(ع) كى قبر ہے) اترے، غسل كر كے اسلحہ اور لباس جنگ پہن كر
اپنى سوار ى پر سوار ہوئے،سورہ فتح كى قرائت كرتے ہوئے مسجدالحرام ميں داخل
ہوئے اور آواز تكبير بلند كي، لشكر اسلام نے بھى نعرہ تكبير بلندكيا تو اس
سے سارے دشت و كوہ گونج اٹھے_ اس كے بعد آپ اپنے اونٹ سے نيچے اترے اور
بتوں كو توڑنے كے لئے خانہ كعبہ كے قريب آئے، آپ يكے بعد
ديگرے بتوں كو سرنگوںكرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:
''جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل كان زھوقاً''
''حق آگيا اور باطل ہٹ گيا،اور باطل ہے ہى ہٹنے والا''_
كچھ
بڑے بڑے بت كعبہ كے اوپر نصب تھے، جن تك پيغمبر(ص) كا ہاتھ نہيں
پہنچتاتھا،آپ(ص) نے اميرالمومنين على عليہ السلام كو حكم ديا وہ ميرے دوش
پر پائوں ركھ كر اوپر چڑھ جائيں اور بتوں كو زمين پر گرا كر توڑڈاليں، على
عليہ السلام نے آپ كے حكم كى اطاعت كي_
اس
كے بعد آپ نے خانہ كعبہ كى كليد لے كر دروازہ كھولا اور انبياء كى ان
تصويروں كو جو خانہ كعبہ كے اندر دروديوار پر بنى ہوئي تھيں، محو كرديا_ اس
سريع اور شاندا ركاميابى كے بعد پيغمبر (ص) نے خانہ كعبہ كے دروازے كے
حلقہ ميں ہاتھ ڈالا اور وہاں پر موجود اہل مكہ كى طرف رخ كركے فرمايا:
''اب
بتلائو تم كيا كہتے ہو؟ اور تمہارا كيا خيال ہے كہ ميںتمہارے بارے ميں كيا
حكم دوں گا؟ انہوں نے عرض كيا: ہم آپ سے نيكى اور بھلائي كے سواراور كوئي
توقع نہيںركھتےآپ(ص) ہمارے بزرگواربھائي اور ہمارے بزرگوار بھائي كے فرزند
ہيں،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ہيں، ہيں بخش ديجئے ،پيغمبر (ص) كى آنكھوں ميں
آنسو ڈبڈبانے لگے اورمكہ كے لوگ بھى بلند آواز كے ساتھ رونے لگے_
پيغمبر
اكرم (ص) نے فرمايا: ''ميں تمہارے بارے ميں وہى بات كہتا ہوں جو ميرے
بھائي يوسف عليہ السلام نے كى تھى كہ آج تمہارے اوپر كسى قسم كى كوئي سرزنش
اور ملامت نہيں ہے، خدا تمہےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمين ہے''_(1)
اور اس طرح سے آپ نے ان سب كو معاف كرديا اور فرمايا: ''تم سب آزاد ہو،جہاں چاہو جاسكتے ہو''_
آج كا دن روز رحمت ہے
پيغمبر
(ص) نے يہ حكم دياتھا كہ آپ كے لشكرى كسى سے نہ الجھيں اور بالكل كوئي خون
نہ بہايا جائے_ ايك روايت كے مطابق صرف چھ افراد كو مستثنى كيا گيا جو بہت
ہى بد زبان اور خطرناك لوگ تھے_
يہاں
تك كہ جب آپ(ص) نے يہ سنا كہ لشكر اسلام كے علمدار''سعد بن عبادہ نے
انتقام كا نعرہ بلند كيا ہے اور وہ يہ كہہ رہا ہے كہ:'' آج انتقام كا دن
ہے'' تو پيغمبر (ص) نے على عليہ السلام سے فرمايا، ''جلدى سے جاكر اس سے
علم لے كر يہ نعرہ لگائو كہ:
'' آج عفو وبخشش اور رحمت كا دن ہے''_
اور
اس طرح مكہ كسى خونريزى كے بغير فتح ہوگيا،عفوورحمت اسلام كى اس كشش نے،جس
كى انہيں بالكل توقع نہيں تھي،دلوں پر ايسا اثر كيا كہ لوگ گروہ در گروہ
آكر مسلمان ہوگئے،اس عظيم فتح كى صدا تمام جزائر عربستان ميں جاپہنچي،اسلام
كى شہرت ہر جگہ پھيل گئي اور مسلمانوں اور اسلام كى ہر جہت سے دھاك بيٹھ
گئي _
جب پيغمبر اكرم (ص) خانہ كعبہ كے دروازے كے سامنے كھڑے ہوئے تھے تو آپ نے فرمايا:
''خداكے
سوا اور كوئي معبود نہيںہے،وہ يكتا اور يگانہ ہے،اس نے آخر كار اپنے وعدہ
كو پورا كرديا، اور اپنے بندہ كى مددكي،اور اس نے خود اكيلے ہى تمام گروہوں
كو شكست دےدي، ان لوگوں كا ہر مال ،ہر امتياز ،اورہر وہ خون جس كاتعلق
ماضى اور زمانہ جاہليت سے ہے،سب كے سب ميرے ان دونوں قدموں كے نيچے ہيں''_
(يعنى
زمانہ جاہليت ميں ہوئے خون خرابہ كو بھول جاو ،غارت شدہ اموال كى بات نہ
كرو اور زمانہ جاہليت كے تمام امتيازات كو ختم كر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں
كو بند كر ديا جائے _)
يہ ايك بہت ہى اہم اور عجيب قسم كى پيش نہاد تھى جس ميں عمومى معافى كے فرمان سے حجاز كے لوگوں كو
ان
كے تاريك اور پُر ماجرا ماضى سے كاٹ كر ركھ ديا اور انہيں اسلام كے سائے
ميں ايك نئي زندگى بخشى جو ماضى سے مربوط كشمكشوں اور جنجالوں سے مكمل طور
پر خالى تھي_
اس كام نے اسلام كى پيش رفت كے سلسلہ ميں بہت زيادہ مد دكى اور يہ ہمارے آج اور آنے والے كل كے لئے ايك دستو رالعمل ہے_
عورتوں كى بيعت كے شرائط
پيغمبر
اكرم (ص) نے كوہ صفا پر قيام فرمايا،او رمردوں سے بيعت لي،بعدہ مكہ كى
عورتيں جو ايمان لے آئي تھيں بيعت كرنے كے لئے آپ(ص) كى خدمت ميں حاضر
ہوئيں تووحى الہى نازل ہوئي اور ان كى بيعت كى تفصيل بيان كى _
روئے سخن پيغمبر (ص) كى طرف كرتے ہوئے فرماتا ہے :
''اے
پيغمبر جب مومن عورتيں تيرے پاس آئيں او ران شرائط پر تجھ سے بيعت كرليں
كہ وہ كسى چيز كو خداكا شريك قرار نہيں ديں گي، چورى نہيں كريں گى ،زنا سے
آلودہ نہيں ہوںگي،اپنى اولاد كو قتل نہيں كريں گي،اپنے ہاتھوں اورپائوں كے
آگے كوئي افتراء اور بہتان نہيں باندھيں گى اور كسى شائستہ حكم ميں تيرى
نافرمانى نہيں كريں گى تو تم ان سے بيعت لے لو اوران كے لئے بخشش طلب
كرو،بيشك خدا بخشنے ،والا اورمہربان ہے_ ''(2)
اس كے بعد پيغمبر (ص) نے ان سے بيعت لي_
بيعت
كى كيفيت كے بارے ميں بعض مورخين نے لكھا ہے كہ پيغمبر (ص) نے پانى كاايك
برتن لانے كا حكم ديا او راپنا ہاتھ پانى كے اس برتن ميں ركھ ديا،عورتيں
اپنے ہاتھ برتن كے دوسرى طرف ركھ ديتى تھيں،جب كہ بعض نے كہا ہے پيغمبر (ص)
لباس كے اوپر سے بيعت ليتے تھے _
ابوسفيان كى بيوى ہندہ كى بيعت كا ماجرا
فتح
مكہ كے واقعہ ميں جن عورتوں نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر بيعت كى
ان ميں سے ايك ابو سفيان كى بيوي''ہندہ''تھي، يعنى وہ عورت جس كى طرف سے
تاريخ اسلام بہت سے دردناك واقعات محفوظ ركھے ہوئے ہے،ا ن ميں سے ايك ميدان
احد ميں حمزہ سيدالشہداء (ع) كى شہادت كا واقعہ ہے كہ جس كى كيفيت بہت ہى
غم انگيز ہے _
اگرچہ
آخركاروہ مجبور ہوگئي كہ اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كے سامنے گھٹنے ٹيك
دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے ليكن اسكى بيعت كا ماجرا بتاتا ہے كہ وہ
حقيقت ميں اپنے سابقہ عقائد كى اسى طرح وفادار تھى ،لہذا اس ميں تعجب كى
كوئي بات نہيں ہے كہ بنى اميہ كا خاندان اور ہندہ كى اولادنے پيغمبر (ص) كے
بعد اس قسم كے جرائم كا ارتكاب كيا كہ جن كى سابقہ زمانہ ميں كوئي نظير
نہيں ملتى _
بہر
حال مفسرين نے اس طرح لكھا ہے كہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا
وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئي جب آپ كوہ صفا پر تشريف فرما
تھے اور عورتوںكى ايك جماعت ہندہ كے ساتھ تھي، جب پيغمبر (ص) نے يہ
فرماياكہ ميں تم عورتوںسے اس بات پر بيعت لتيا ہوں كہ تم كسى چيز كو خدا كا
شريك قرار نہيں دو گي، تو ہندہ نے اعتراض كيا او ركہا:''آپ ہم سے ايسا عہد
لے رہے ہيں جو آپ نے مردوں سے نہيں ليا ، (كيونكہ اس دن مردوں سے صرف
ايمان اورجہاد پربيعت لى گئي تھى _)
پيغمبر
(ص) نے اس كى بات كى پرواہ كئے بغير اپنى گفتگو كو جارى فرمايا:''كہ تم
چورى بھى نہيں كرو گي،''ہند ہ نے كہا: ابو سفيان كنجوس اوربخيل آدمى ہے ميں
نے اس كے مال ميں سے كچھ چيزيںلى ہيں، ميں نہيں جانتى كہ وہ انھيں مجھ پر
حلال كرے گا يا نہيںابو سفيان موجود تھا ،اس نے كہا: جو كچھ تو نے گذشتہ
زمانہ ميں ميرے مال ميںسے لے ليا ہے وہ سب ميں نے حلال كيا ،(ليكن آئندہ كے
لئے پابندى كرنا _)
اس موقع پر پيغمبر (ص) ہنسے اور ہندہ كو پہچان كر فرمايا:''كيا تو ہندہ ہے''؟ اس نے كہا :جى ہاں ،يا
رسول اللہ پچھلے امور كو بخش ديجئے خدا آپ كو بخشے ''_
پيغمبر
(ص) نے اپنى گفتگو كو جارى ركھا:''او رتم زنا سے آلودہ نہيں ہوگي،''ہندہ
نے تعجب كرتے ہوئے كہا:''كيا آزاد عورت اس قسم كا عمل بھى انجام ديتى
ہے؟''حاضرين ميںسے بعض لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اس كى حالت سے واقف تھے اس
كى اس بات پر ہنس پڑے كيونكہ ہندہ كا سابقہ زمانہ كسى سے مخفى نہيں تھا_
پھر پيغمبر (ص) نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے فرمايا:
''اور تم اپنى اولاد كو قتل نہيں كروگى ''_
ہند
نے كہا:''ہم نے تو انھيں بچپن ميں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ
نے انھيں قتل كرديا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہيں''_( اس كى مراد اس
كا بيٹا ''حنظلہ''تھا جو بدر كے دن على عليہ السلام كے ہاتھوں ماراگيا
تھا_)
پيغمبر (ص) نے اس كى اس بات پر تبسم فرمايا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمايا:
''تم بہتان او رتہمت كو روا نہيں ركھوگى ''_
تو ہندہ نے كہا:''بہتان قبيح ہے او رآپ ہميں صلاح و درستى ،نيكى او رمكارم اخلاق كے سوا او ركسى چيز كى دعوت نہيں ديتے''_
جب آپ نے يہ فرمايا:
''تم
تمام اچھے كاموں ميں ميرے حكم كى اطاعت كروگى ''_تو ہندہ نے كہا:''ہم يہاں
اس لئے نہيں بيٹھے ہيں كہ ہمارے دل ميں آپ كى نافرمانى كاارادہ ہو''_
(حالانكہ
مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہيں تھا، ليكن تعليمات اسلامى كے مطابق
پيغمبر (ص) اس بات كے پابند تھے كہ ان كے بيانات كو قبول كرليں_
(1)سورہ يوسف آيت 92
(2)سورہ ممتنحہ آيت 12
0 comments:
Post a Comment